آج گُم سُم ہے جو برباد جزیروں جیسی
اُس کی آنکھوں میں چمک تھی کبھی ہیروں جیسی کتنے مغرور پہاڑوں کے بدن چاک ہوئے تیز کرنوں کی جو بارش ہوئی تیروں جیسی جس کی یادوں سے خیالوں کے خزانے دیکھے اُس کی صورت بھی لگی آج فقیروں جیسی چاہتیں لَب پہ مچلتی ہوئی لڑکی کی طرح حسرتیں آنکھ میں زنداں کے اَسیروں جیسی ہم اَنا مست، تہی دست بہت ہیں مُحسن یہ الگ بات کہ عادت ہے امیروں جیسی |
No comments:
Post a Comment