Sunday, April 5, 2015

Khawab meri aankhon se kesa kesa cheena hai by tabasum waraich



خواب میری آنکھوں سے کیسا کیسا چِھینا ہے
مُفلسی سے بڑھ کر بھی کیا کوئی کمینہ ہے
روشنی کے مدفن میں خوشبوؤں کی میّت ہے



آرزُو کے آنگن میں درد کی حسینہ ہے
نامُراد راتیں ہیں، بے ہدف اُجالے ہیں
ذِلّتوں کے دوزخ میں اور کتنا جینا ہے؟
ریزہ ریزہ خوابوں کی کرچیوں کو چُن چُن کر
زہر زندگی کا یہ، قطرہ قطرہ پینا ہے
جانے کون ہوتے ہیں جو مُراد پاتے ہیں
اپنے واسطے تو یہ تیرھواں مہینہ ہے
جانے کس زمانے میں اُجرتیں بھی مِلتی تھیں
اب تو محنتوں کا عِوض خُون اور پسینہ ہے
زر پرست بستی کی کیا حسِیں ثقافت ہے
ہونٹ مسکراتے ہیں پر دلوں میں کِینہ ہے
خوف کے سمندر میں اِضطراب کی موجیں
جن پہ بے یقینی کا، ڈولتا سفینہ ہے
روز اِک اذیّت کے دشت سے گزرتا ہوں
نارسی کے تِیروں سے چَھلنی میرا سِینہ ہے
زندگی تو صدیوں سے کربلا میں ٹھہری ہے
دمشق اور کُوفہ میں دربدر مدینہ ہے
کرب کے الاؤ میں شعلہ شعلہ جلتا ہوں
وحشتوں کی سنگت میں لمحہ لمحہ جِینا ہے
شامِ زندگی سر پہ آ کھڑی ہے اور خود کو
ریزہ ریزہ چُننا ہے، لخت لخت سِینا ہے

تبسمؔ وڑائچ

No comments:

Post a Comment