Sunday, April 5, 2015

Din teri yaad k hoe by Sameena Raja

دِن تری یاد کے ہوئے، شب ترے نام کی ہوئی
کچھ بھی نہ تھی یہ زندگی، اب کسی کام کی ہوئی
مطلعِ خواب پر کہیں، کوئی طلوع ہو گیا
آج کے بعد تو نظر بس اُسی بام کی ہوئی


سارے بدن پہ چھا گئی، جیسے کہ بُوئے یاسمیں
دل کو عجب طرح خُوشی اُس سے کلام کی ہوئی
عشقِ طلسم رنگ نے کیسا کِیا ہے معجزہ

 
اوّلِ ماہ کی یہ شب، ماہِ تمام کی ہوئی
کوئی سفر میں ساتھ تھا، ہاتھ میں اُس کا ہاتھ تھا
بادِ صبا بھی معترف، حُسن خرام کی ہوئی
دشت کو بَن بنا گئی، کون سے گُل کِھلا گئی؟
وہ جو کوئی بہار تھی، آپ نے عام کی ہوئی
پردۂ ابر میں کہیں چُھپ گیا رُوئے آفتاب
دن میں بہت خفیف سی روشنی شام کی ہوئی
لے کے زیاں و سُود کو، ہست کو اور بُود کو
موجِ فنا بھی پھر اُسی بحرِ دوام کی ہوئی

ثمینہ راجہ

No comments:

Post a Comment