Wednesday, December 4, 2013

ye december ka maheena, ye hawa ki thandak

یہ دسمبر کا مہینہ، یہ ہوا کی ٹھنڈک


دل کے جذبات میں محفوظ وفا کی ٹھنڈک


پار سینے کے اُترتا یہ ہواؤں کا لمس


ذرد پتوں کے مسل جانے کی آواز کا شور


شام ڈھلتے ہی وہ کہرائے ہوئے سے منظر،


یادِ ماضی میں کسی بھولے ہوئے راز کا شور


دل سے اٹھتی ہوئی گمنام ندا کی ٹھنڈک


یہ دسمبر کا مہینہ، یہ ہوا کی ٹھنڈک

یہ مہینہ ہے دسمبر کا ستمگر ایسا


کھول دے بھوُلی ہوئی یادوں کے کھاتے پچھلے


وہ جو موجود تھے آباد تھے پچھلے ہی برس


وقت کی دھند میں گُم ہو گئے ہیں سب چہرے


پھر جو تڑپاتی ہے بِچھڑوں کی قباء کی ٹھنڈک

یہ دسمبر کا مہینہ، یہ ہوا کی ٹھنڈک

میں نے سوچا تھا کہ میں خود سے شناسا ہوں گا


مجھ کو اپنے ہی ارادوں سے محبت ہوگی


میں نکل آؤں گا قسمت کی اُلٹ پھیر سے اب


مجھ پہ احباب کی بے لوث عنایت ہوگی


میں نے جَھیلی وہی نفرت کی، انا کی ٹھنڈک


یہ دسمبر کا مہینہ، یہ ہوا کی ٹھنڈک


اب جو تم سوچنے بیٹھے ہو نئی گھڑیوں کو


یہ خیالوں کا تسلسل تو ٹھہر جائے گا


وقت کے آگے بھلا کِس کی یہاں چلتی ہے


زندگی کا یہ سفر یونہی گزر جائے گا


وہی دن رات وہی سحر و صبا کی ٹھنڈک


یہ دسمبر کا مہینہ، یہ ہوا کی ٹھنڈک

No comments:

Post a Comment