Monday, April 15, 2013

wo hum safar tha


وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاوں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

نہ اپنا رنج نہ اپنا دکھ نہ اوروں کا ملال
شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی

محبتوں کا سفر کچھ اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی

عداوتیں تھیں ، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا ، بے وفائی نہ تھی

بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی

کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی

عجیب ہوتی ہے راہِ سخن بھی دیکھ نصیر
وہاں بھی آ گئے آخر جہاں رسائی نہ تھی

نصیر ترابی

No comments:

Post a Comment