Wednesday, March 27, 2013

In jheel si gehri ankhon mein


ان جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو
اس جھیل کنارے پل دو پل
اک خواب کا نیلا پھول کھلے
وہ پھول بہا دیں لہروں میں
اک روز کبھی ہم شام ڈھلے
اس پھول کے بہتے رنگوں میں
جس وقت لرزتا چاند چلے
اس وقت کہیں ان آنکھوں میں اس بسرے پل کی یاد تو ہو
ان جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو
پھر چاہے عمر سمندر کی
ہر موج پریشاں ہو جائے
پھر چاہے آنکھ دریچے سے
ہر خواب گریزاں ہو جائے
پھر چاہے پھول کے چہرے کا
ہر درد نمایاں ہو جائے
اس جھیل کنارے پل دو پل وہ روپ نگر ایجاد تو ہو
دن رات کے اس آئینے سے وہ عکس کبھی آزاد تو ہو
ان جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو

No comments:

Post a Comment