کب ملے غیر کی پناہوں سے
درد ملتے ہیں آشناؤں سے
خشک پتوں کو ناچتے دیکھا
گیت سنتا رہا ہواؤں سے
مال و زر کی طلب نہیں ہے مجھے!
میری جھولی بھرو دعاؤں سے
اور کتنا چلو گے تم آخر!
آبلوں نے کہا یہ پاؤں سے
جن کو عادت ہے بے وفائی کی
آؤ جیتیں اُنہیں وفاؤں سے
آؤ اُن کو قریب سے دیکھیں
جل گئے ہیں جو لوگ چھاؤں سے
ہو مسیحا یا پھر دُعا عاطف
درد گھٹتے ہیں کب دواؤں سے
درد ملتے ہیں آشناؤں سے
خشک پتوں کو ناچتے دیکھا
گیت سنتا رہا ہواؤں سے
مال و زر کی طلب نہیں ہے مجھے!
میری جھولی بھرو دعاؤں سے
اور کتنا چلو گے تم آخر!
آبلوں نے کہا یہ پاؤں سے
جن کو عادت ہے بے وفائی کی
آؤ جیتیں اُنہیں وفاؤں سے
آؤ اُن کو قریب سے دیکھیں
جل گئے ہیں جو لوگ چھاؤں سے
ہو مسیحا یا پھر دُعا عاطف
درد گھٹتے ہیں کب دواؤں سے
No comments:
Post a Comment