Sunday, November 24, 2013

Kab mile ghair ki panahon se

کب ملے غیر کی پناہوں سے

درد ملتے ہیں آشناؤں سے

خشک پتوں کو ناچتے دیکھا

گیت سنتا رہا ہواؤں سے

مال و زر کی طلب نہیں ہے مجھے!

میری جھولی بھرو دعاؤں سے

اور کتنا چلو گے تم آخر!

آبلوں نے کہا یہ پاؤں سے

جن کو عادت ہے بے وفائی کی

آؤ جیتیں اُنہیں وفاؤں سے

آؤ اُن کو قریب سے دیکھیں

جل گئے ہیں جو لوگ چھاؤں سے

ہو مسیحا یا پھر دُعا عاطف

درد گھٹتے ہیں کب دواؤں سے

No comments:

Post a Comment